میر کی غزلیں Flashcards
(وری کا، گری کا ) کس کی غزل ہے
میر تقی میر
موت ہر کسی کو انی ہے پر شعر
موت سے کس کو رست گاری ہے
اج وہ کل ہماری باری ہے
مرنے کے بعد سب کچھ یہاں چھوڑ جائے گا پر
شعر
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا
پہلے اکڑ کے چلتے تھے اب انہیں بھیک بھی نہیں ملتی پر شعر
دلی میں آج بھیک بھی نہیں ملتی انہیں
تھاکل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
جتنا بھی تکبر ہو بامن کوئی نام و نشان نہیں بچنا پر شعر
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
عشق میں مشکلات پر شعر
یہ عشق نہیں اسان، اتنا سمجھ لیجیے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
عاشق کے ظلم پر شعر
باز آجاؤ ظلم سے ہمدم
ورنہ ایک روز حشر کا بھی ہے
شیشہ کے ٹوٹنے پر شعر
ٹوٹ جائے تو پھر نہیں جڑتا
یہ صفت آئینے میں دیکھیے
احتیاط سے کام کرنا پر شعر
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگہہ ساری دکان شیشہ گر ہے
گلوں کی زندگی قلیل ہونے پر شعر
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
میرا خزاں کے موسم میں دل نہیں لگتا پر شعر
لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
شاعر کے مرنے کے بعد عاشق کے انے پر شعر
میرے مرنے کے بعد اؤ گے
کیا زمانے کو منھ دکھاؤ گے
جب تک میری زندگی ہے تو ا جاؤ پر شعر
آ بھی جاؤ کہ وقت نازک ہے
زندگی لوٹ کر نہیں آتی
میرا درد سننے والا کوئی نہیں پر شعر
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
شاعر کے غم کی انتہا پر شعر
آ مجھے دیکھ،جسے دیکھ کے دنیا کہہ دے
ہم نے پھرتا ہوا، بازار میں غم دیکھا ہے
محبت میں ناکامی کے باوجود محبوب پر جان نثار کرنے پر شعر
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
کاش یہ جان اللہ پر نثار کی ہوتی پر شعر
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
شعر کے ذریعے دل کی بات کہنے پر شعر
فراق اے کاش!سننے والوں کے سینے میں دل ہوتا
حقیقت ہوتی ہے اشعار میں باتیں نہیں ہوتی
واقف نہ کروائے بغیر شعر میں مخاطب کرنا پر شعر
اشعار کے پردے میں ہم جن سے مخاطب ہیں
وہ جان گئے ہوں گے کیوں نام لیا جائے
عشق میں تنگدستی یا مشکلات پر شعر
اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
عاشقی سے غم ملنے پر شعر
مری ہر خوشی تھی تری خوشی سے پہلے
مجھے کوئی غم نہیں تھا غمِ عاشقی سے پہلے
(اے کاش) کس کی غزلیں ہیں
میر تقی میر