تسلیم و رضا Flashcards
تسلیم و رضا کے شاعر
نظیر اکبر آبادی (1735- 1830)
فقر پر شعر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ہی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
فقر میں خوش رہنے پر شعر
جو فقر کی دولت سے ہے معمور ہمیشہ
ہر حال میں خوش رہتے ہیں شکوہ نہیں کرتے
امیری پر خوشی پر شعر
عمارت میں بھی وہ ہرگز خدا کو بھولتے نہ تھے
اسی کے نام کی تسبیح رہتی تھی زبانوں پر
خدا جہاں جانے کا حکم دیتا ہے وہاں جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں پر شعر
تیرے کہنے پہ چھوڑ دیتے ہیں
اہل و عیاں اور مال و متاع
ہر ایک کام خدا کے لیے کرنے پر شعر
ہر ایک عمل زیست کا بس تیرے لیے ہو
ہر گام رہے فکر مجھے تیری رضا کی
خدا کے دیے ہوئے غم میں میں خوش پر شعر
درد کے پردے میں بخشا مجھے ہستی کا شعور
یہ کرم خوب کیا مجھ پر خدا مے میرے
زندگی ادھار لی گئی ہے پر شعر
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زندگی اور موت سلسلے کی کڑیاں ہیں پر شعر
اک مسلسل سفر کا قصہ
ہے موت بھی زندگی کا حصہ ہے
موت خدا کی طرف سے بلاوا ہے پر شعر
دل کو سکون، روح کو آرام اگیا
موت آگئی کہ دوست کا پیغام اگیا