حمد Flashcards
حمد کے مصنف
امیر مینائی(1828-1900)
حمد کے مصنف
امیر مینائی(1828-1900)
دوسرا کون ہے جہاں توں ہے
کون جانے تجھے کہاں تو ہے
ارشاد
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں۔
ترجمہ: اگر کائینات میں خدائے واحد کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو اس کا نظام بگڑ کر رہ جاتا۔
ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور دن اور رات کے ہیر پھیر میں یقینن عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
دوسرا کون ہے جہاں توں ہے
کون جانے تجھے کہاں تو ہے
مفہوم
اے اللہ جس مقام پر تو فائز ہے وہاں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ تو کہاں ہے۔
دوسرا کون ہے جہاں توں ہے
کون جانے تجھے کہاں تو ہے
شعر
1۔ ہے غلط گر گماں میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہاں میں کچھ ہے
2۔ ذرے ذرے سے عیاں ہونے کے بعد
آج تک راز حقیقت راز ہے
3۔ عقل میں جو گھر گیا لاانتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
لاکھ پردوں میں تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشاں تو ہے
مفہوم
اے اللہ! تیری زات لاکھ پردوں میں چھپی ہونے کے باوجود نظر آتی ہے۔ بے شک تیرے وجود کے اقرار کے لیے سیکڑوں نشانیاں موجود ہیں۔
لاکھ پردوں میں تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشاں تو ہے
شعر
1۔ کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
2۔ جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی نظر آیا جدھر دیکھا
3۔ دلوں کو مغفرت کے نور سے تو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر ہمیں اپنا نشاں تو نے
4۔ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل دا کرے کوئی
5۔ کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آلباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
تو ہے خلوت میں، تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے
مفہوم
اے اللہ تو تنہائی اور مجمع ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن کہیں تیری زات چھپی ہوئی ہے اور کہیں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
تو ہے خلوت میں، تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے
ارشاد
ترجمہ: اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
تو ہے خلوت میں، تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے
شعر
1۔ یہ پھول، یہ کلیاں، یہ صبا، ہے کہ نہیں
ہر رنگ میں وہ جلوہ نماں، ہے کہ نہیں
2۔ جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی نظر آیا جدھر دیکھا
3۔ ہر زرہ ہے اس بات کا شاہد کہ خدا ہے
حیراں ہے مگر عقل، کہ کیسا ہے وہ، کیا ہے
نہیں تھا تیرے سوا یہاں کوئی
میزباں توں ہے، مہمان تو ہے
مفہوم
اے اللہ کائنات میں تیرے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو میزبان بھی ہے اور مہمان بھی۔
نہیں تیرے سوا یہاں کوئی
میزباں توں ہے، مہمان تو ہے
شعر
1۔ لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی راز نہاں ہوں
2۔ نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبایا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا
3۔جو کچھ کہ ہے دنیا میں انسان کے لیے ہے
آراستہ یہ گھر اسی مہمان کے لیے ہے
رنگ تیرا چمن میں بو تیری
خوب دیکھا تو باغباں تو ہے
مفہوم
اے اللہ یہ چمن تیرے ہی رنگ و بو کا عکس پیش کرتا ہے اور ہم نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ تو ہی اس کا میر گلشن ہے۔
رنگ تیرا چمن میں بو تیری
خوب دیکھا تو باغباں تو ہے
شعر
1۔ گلوں میں رنگ، ضیابن کے چاند تاروں میں
وہ پردہ دار کہاں جلوہ گر نہیں ہوتا
2۔ دیا دکھا مجھے تو اسی کا جلوہ میر
پڑی جہاں میں جاکر نظر جہاں میری
3۔ ہر زرہ اس بات کا شاہد کہ خدا ہے
حیراں ہے، مگر عقل، کہ کیسا ہے وہ؟ کیا ہے
محرم راز تو بہت ہیں امیر
جس کو کہتے ہیں رازداں، تو ہے
مفہوم
اے امیر! میرے ہم راز تو بہت ہیں لیکن حقیقی رازداں اللہ ہی کی زات ہے۔