nasir kazmi 2 Flashcards
اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں ، تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے میرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
حلِ لُغات:ہم سخن(دوست)،وفا ( محبت)، ہونٹ سی(نہ بولنا)
حلِ لُغات:نور(چمک،روشنی)
حلِ لُغات:دیار(شہر،وطن)
مفہوم:اے میرے ہم زبان اب وفا کا تقاضا یہی ہے کہ میں حق بات نہ لکھوں اور اپنے ہاتھ قلم کرلوں اور تو اپنےہونٹ سی لے۔
مفہوم:زمانے کے حادثات نےمجھےکن بےدل لوگوں میں پھینک دیا ہے۔جن کی آنکھوں میں نورنہیں اورنہ ہی باتوں میں تازگی ہے۔
مفہوم:اے میرے شہر کی سوئی ہوئی زمین بتا ! جن لوگوں کو میں تلاش کر رہا ہوںوہ کہاں ہیں۔
اگر وطن سے محبت ہے تم کو اے عبرتؔ
تو پیدا عزم سے تم سبز انقلاب کرو
حکم ہے سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیمؔ
زخم کو زخم نہیں پھول بتایا جائے
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
2
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
تھا کبھی علم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل رز آدمی ، قصر آدمی، کار آدمی
یہ کون لوگ ہیں مرے اِدھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
3
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو رفاقت نہیں ملی
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
حلِ لُغات:شجر(درخت)
حلِ لُغات:سنسان(ویران)، بے چراغ(تاریک)
مفہوم:وہ درخت جن کے پھل میٹھے تھے وہ کٹ گئے اور جس دیوار کی چھاؤں ٹھنڈی تھی وہ دیوارگرگئی۔
مفہوم:شہر کے تمامبازاربند، راستےویران اورتاریک ہیں۔یہ وہ رات ہےکہ مارےخوف کےکوئی گھرسے باہرنہیں نکلتا۔
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ احباب میں تھے
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتےہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتےہیں
سفر کی موج میں تھے، وقت کے غبار میں تھے
وہ لوگ جو ابھی اس قریہ بہار میں تھے
2
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
شام ہی سے پرندے گھونسلوں میں
چھپ جو جاتے ہیں مصلحت ہے کوئی
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے