hamdani 2 Flashcards
نہ گیا کوئی عدم کو دل شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لے کر
شاعر کا نام:غلام ہمدانی مصحفیؔ
حلِ لُغات:عدم(آخرت)، دل شاداں (مطمئن دل)، یاں سے(یہاں سے)، حسرت و ارماں(آرزوئیں)
مفہوم:کوئی بھی شخص اس دنیا سے خوش نہیں گیا۔لوگ کیسی کیسی خواہشات لیے یہاں سے رخصت ہوئے۔
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
باغ وہ دشتِ جنوں تھا کہ کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لے کر
شاعر کا نام:غلام ہمدانی مصحفیؔ
حلِ لُغات:دشت جنوں(پاگل پن کا جنگل)، لالہ و گل(گلاب اورلالہ پھول)، گریباں(دامن)
مفہوم:دنیا وہ دشت جنوں تھا کہ جس میں سےکوئی بھی لالہ و گل اپنا گریباں ثابت لے کر نہ گئے۔
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
جوشِ جنوں کے ہاتھ سے فصلِ بہار میں
گل سے بھی ہو سکی نہ گریباں کی احتیاط
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
پردۂِ خاک میں سو، سو رہے جا کر افسوس
پردہ رخسار پہ کیا کیا مہِ تاباں لے کر
شاعر کا نام:غلام ہمدانی مصحفیؔ
حلِ لُغات:پردۂِ خاک میں(مراد قبر میں)، پردہ رخسار(عارض یا گالوں پر)، مہ ِتاباں(چمکتا ہو اچاند،حسین)
مفہوم:افسوس !کیسے کیسے خوبصورت چہرے منوں مٹی تلے خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیندسو گئے ہیں۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ
ترجمہ : ہر شخص کو موت کا مزہ چکھناہے۔
(سورۃ ال عمران 4:185)
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
کتنی دل کش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
ابر کی طرح سے کر دیویں گے عالم کو نہال
ہم جدھر جاویں گے، یہ دیدۂ گریاں لے کر
شاعر کا نام:غلام ہمدانی مصحفیؔ
حلِ لُغات:ابر(بادل)، نہال(خوش حال،سیراب)، جاویں گے(جائیں گے)، دیدۂ گریاں(روتی ہوئی آنکھ)
مفہوم:جدھر بھی ہم یہ روتی ہوئی آنکھیں لے کر جائیں گے بادل کی طرح سے زمانے کو سیراب کردیں گے۔
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
اپنی تو یہ مثال ہے جیسے کوئی درخت
اوروں کو چھاؤں بخش کے خود دھوپ میں جلے
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا
خبر آمدِ ایامِ بہاراں لے کر
شاعر کا نام:غلام ہمدانی مصحفیؔ
حلِ لُغات:سوئے (طرف )اسیران (قیدی)قفس(قید خانہ)، باد صبا(صبح کی ہوا)، ایام بہاراں(بہار کے دن)
مفہوم:صبح کی ٹھنڈی ہوا پھر بہار کی آمد کی خبر لے کر قیدی پرندوں کی طرف گئی ہے۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
مدت سے نہ آئی کوئی خبر، یاران گلستاں کیسے ہیں؟
اے باد صبا، اتنا تو بتا، سرو و گل و ریحاں کیسے ہیں؟
ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے