iqbal Flashcards
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اَسرارِ شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
حلِ لُغات:آدابِ خود آگاہی(خودی کو پہچاننے کے طریقے)، اسرارِ شہنشاہی(حکومت کرنے کے راز)
حلِ لُغات:عطار(فارسی کے مشہور صوفی شاعر خواجہ فریدالدین عطار)، رومی(فارسی کے مشہور شاعر مولانا جلال الدین رومی، اقبالؒ انہیں اپنا پیرومرشد کہتے تھے)، رازی(شیخ فخر الدین رازی ایران میں پیدا ہوئے فلسفہ، کیمیا، طب، تفسیر کے ماہر اور کئی کتب کے مصنف تھے۔)، غزالی(فلسفی اور دانش ور امام غزالی طوس ایران میں پیدا ہوئے۔)، آہِ سحر گاہی(صبح اُٹھ کر فریاد کرنا مراد تڑپ،سوز، عشق)
حلِ لُغات:نومید(نااُمید)، رہبرفرزانہ(عقل مند راہنما)، کم کوش(سست)، بے ذوق(جذبہ سے خالی)
مفہوم:جب عشق انسان کواپنی پہچان کے آداب سکھادیتا ہے تو غلاموں پر بادشاہی کے رازعیاں ہوجاتےہیں
۔مفہوم:خواجہ فرید الدین عطار، رومی، رازی، غزالی، جیسی عظیم شخصیات بننا آہِ سحر گاہی کے بغیر ممکن نہیں۔
مفہوم:اے عقل مند راہنما !تو ان مسلمانوں سےنا امید نہ ہو۔ یہ سست اور آرام پسند ضرور ہیں لیکن بےذوق نہیں ہیں۔
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
تمدن آفریں، خلاق آئین جہاں داری
وہ صحرائے عرب، یعنی شتر بانوں کا گہوارا
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
2
خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
3
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مرد مو من ہے خدا کے راز دانوں میں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کی اپنی منزل آسمانوں میں
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللّٰہی
آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
حلِ لُغات:طائر(پرندہ)، طائر لاہوتی( لاہوت کے مقام پر اُڑنے والا پرندہ مراد مردِ مومن)، کوتاہی(کم زوری، کمی، پستی)
حلِ لُغات:دارا(دارا ایران کا مشہور حکم ران جسے سکندر اعظم نے شکست دی)، سکندر(سکندراعظم مقدونیہ کا بادشاہ)، مرد فقیر(درویش)، اولیٰ(افضل)، بوئے اسداللّہی(حضرت علی ؓ جیسی خوبیاں)
حلِ لُغات:آئین(طور طریقے)، جواں مرد(بہادر لوگ)، حق گوئی(سچی بات کہنا)، بے باک(نڈر)، رُوباہی(فریب،مکر،چال)
مفہوم:اے طائر لاہوتی ! اس رزق سےموت بہترہے جس رزق سے پرواز میں کمی آتی ہو
مفہوم:دارا اور سکندر سے وہ درویش بہتر ہے جس کی سیرت و کردار میں حضرت علیؓ کی صفات کا رنگ ہو۔
مفہوم:بہادر لوگ کا دستور سچ کہنا
اور دلیری دکھانا ہے۔ اللہ کے شیروں کو مکر و فریب نہیں آتا۔
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
2
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہِ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
3
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات