mirza ghalib 2 Flashcards
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گِراں کیوں ہو
کیا غم خوار نے رُسوا، لگے آگ اس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا رازداں کیوں ہو
حلِ لُغات:نوا سنجِ فغاں(فریاد کرنے والا)
حلِ لُغات:خُو(عادت)، وضع(انداز)، سُبک سر(کم تر،سرجھکا کر)، سر گِراں(ناراض)
حلِ لُغات:غم خوار(غم بانٹنے والا)، رسوا(ذلیل)، تاب لانا(برداشت کرنا)، رازداں (راز رکھنے والا)
مفہوم:محبوب کو دل دینے کے بعد شکوہ و شکایت لاحاصل ہے۔
مفہوم:اگر وہ اپنی عادت نہیں بدلیں گے تو پھر ہم اپنی خودداری کیوں چھوڑیں اور کم تر بن کر ان سے کیا پوچھیں ہم سےناراض کیوں ہو؟
مفہوم:میرے غم خوار ہی نے مجھے رسوا کردیا، میں نے ایسے کم حوصلہ انسان کو اپنا رازدار کیوں بنایا تھا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے
جن کا عشق صادق ہو وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پر مہر خاموشی، دلوں میں یاد کرتے ہیں
2
واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کی
وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
3
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبرِ ایوب کیا، گریۂ یعقوب کیا
یہ کہ سکتے ہو، ہم دل میں نہیں ہیں، پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمھیں تم ہو، تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عَدُو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
حلِ لُغات:نہاں(پوشیدہ)، بتلاؤ(بتاؤ)
حلِ لُغات:فتنہ(آزمائش)، خانہ ویرانی(گھر کا اجڑنا)
حلِ لُغات:عَدُو( دشمن
مفہوم:اےمحبوب ! تم یہ کَہ سکتے ہیں کہ ہم تمھارے دل میں نہیں ہیں۔ پر یہ بتاؤ کہ جب دل میں تم ہی تم ہو تو پھر نظروں سےدورکیوں ہو۔
مفہوم:یہ فتنہ گھر کی بربادی کے لیے کافی ہے کہ جس کے تم دوست بن گئے اس کے لیے آسمان کو دشمنی کی ضرورت نہیں ہے۔
مفہوم:اگر یہی آزماناہےتو پھر ستانا کس کو کہتے ہیں جب تم رقیب کے ہو گئے ہو تو پھر میراامتحان کیوں ہو؟
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
میں کوئی اور نہیں عکس نما ہوں تیرا
تو مرے سامنے آ مجھ سے گریزاں کیوں ہے
2
تجھ کو خبر نہیں مگر اک سادہ لوح کو
برباد کر دیا ترے دو دن کے پیار نے
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
3
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا