Grammer Flashcards

1
Q

صنعت مر آماده نظیر

A

کلام میں ایسے سمجھ والفاظ لے کر آنا جن کی آپس میں کوئی نہ کوئی نسبت ہو لیکن وہ باہم متضاد نہ ہوں صنعت مر آعات النظیر کہلاتا ہے۔ مثلا:

ہو مرا ریشه امید وہ محل سر بز
جس کی ہر شاخ میں ہو پھول ہر پھول میں ہو پھل

اس مثال میں محل ، سرسبز ، پھول، شاخ اور پھل ایک ہی نسبت کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
2
Q

رعایت لفظی :

A

کسی لفظ کو اس طرح استعمال کرنا کہ اس کے دو معنی نکلیں۔ ایک معنی تو موقع محل کے مطابق ہو اور سننے والے کا ذہن بھی اس طرف جائے لیکن ذرا غور کرنے پر اس سے دوسرے معنی نکلیں۔

لام نستعلیق کا ہے اس بت خوش خط کی زلف
ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اس لام کے

اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں
عارضی میری زندگانی ہے

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
3
Q

صنعت مبالغہ

A

مبالغہ کے لئے ہے ، حد سے بڑھنا، شعری اصطلاح میں مبالغہ اس سند کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شئے یا شخص کی بعید قیاس ( نا قابل یقین حد تک بڑھا چڑھا کر) تعریف یا مذمت کی جائے:

کل رات ہجر یار میں رویا ۔ میں اس قدر
چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی ، کمر ، کمر

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
4
Q

vi صنعت حسن تعلیل:

A

کلام میں کسی بات یا چیز کی علت ( وجہ یا سبب ) بیان کرنا جو در حقیقت علت نہ ہو۔ شاعری میں حسن تعلیل دراصل وہ صفت ہے جس میں شاعر ایسی چیز کسی چیز کی علت فرض کرتا ہے جو دراصل اس کی علت نہیں ہوتی۔ مثلاً :

کون سی ہے وہ مصیبت مجھ پہ جو ٹوٹی نہیں
رات دن گردش میں ہفت آسماں میرے لیے

سجده شکر میں ہے شاخ ثمر دار ہر اک
دیکھ کر باغ جہاں میں کرم عزوجل

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
5
Q

vi صنعت حسن تعلیل:

A

کلام میں کسی بات یا چیز کی علت ( وجہ یا سبب ) بیان کرنا جو در حقیقت علت نہ ہو۔ شاعری میں حسن تعلیل دراصل وہ صفت ہے جس میں شاعر ایسی چیز کسی چیز کی علت فرض کرتا ہے جو دراصل اس کی علت نہیں ہوتی۔ مثلاً :

کون سی ہے وہ مصیبت مجھ پہ جو ٹوٹی نہیں
رات دن گردش میں ہفت آسماں میرے لیے

سجده شکر میں ہے شاخ ثمر دار ہر اک
دیکھ کر باغ جہاں میں کرم عزوجل

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
6
Q

صنعت تلمیح

A

تجمیع کے لغوی معنی ہیں اشارہ کرنا۔ کلام میں قرآنی آیت، حدیث مبارکہ یا کسی تاریخی، مذہبی واقعے کی طرف اشارہ کرنا تلمیح کہلاتا ہے۔

چشم اقوام ، یہ نظارہ ایک تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
7
Q

i صنعت تکرار:

A

کلام میں لفظ یا الفاظ کو تکرار کے ساتھ استعمال کرنا یعنی اشعار میں ایک لفظ یا الفاظ کو بار بار استعمال کر نا صنعت تکرار کہلاتا ہے۔ مثلاً “ :

پتھر کو گوہر کہہ کہہ کر
بد کو بہتر کہہ کہہ کر
ہم نے ماحول بگاڑا ہے
رہزن کو رہبر کہہ کہہ کر

شاعر نے ان اشعار میں لفظ ” کہہ “ کو تکرار کے ساتھ استعمال کر کے ایک حسن پیدا کیا ہے جسے صنعت تکرار کہیں گے۔ اسی طرح

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
8
Q

استعارہ اور ارکان استعاره

A

استعارہ کے لفظی معنی ادھار لینے کے ہیں۔ علم بیان کی رو سے جب کوئی لفظ اصل کی بجائے مجازی معنوں میں استعمال ہو اور اس کے حقیقی اور مجازی معنوں کا میں تشبیہ کا تعلق ہو تو اسے استعارہ کہتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ تشبیہ میں جو بات مشبہ میں ہوتی ہے اس کا ذکر استعارہ میں نہیں ہوتا۔ لیکن استعار کو میں مشبہ بہ کو مشبہ مان لیا جاتا ہے۔ مثلاً: ماں اپنے بچے کے لیے کہے: چاند سورہا ہے۔

اک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

استعارہ کے تین ارکان ہوتے ہیں۔

مستعارلہ : جس کے لیے لفظ اُدھار لیا جائے اس کا ذ کر استعارے میں نہیں ہوتا۔ اوپر دی گئی مثالوں میں بچہ اور عظیم شخصیت بطور مستعار لہ لوگوں کے استعمال ہوئے ہیں۔

مستعار منہ : جس لفظ یا معنی ادھار لیے جائیں۔ اوپر دی گئی مثالوں میں چاند اور روشن چراغ

وجه جامع : مشترک خوبی یا خامی، اوپر دی گئی مثالوں میں خوبصورتی اور علم کی روشنی۔

ه

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
9
Q

تشبیه اور ارکان تشبیه

A

تشبیہ کے لفظی معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دینا یا مثال دیتا۔ اور علم بیان کی رو سے ایک چیز کسی مشترک خوبی کی بنا پر دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے۔ جب کہ وہ خوبی دوسری چیز میں زیادہ پائی جاتی ہو تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ مثلا: چشمے کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

تشبیہ کے پانچ ارکان ہوتے ہیں :

به امشبه به حرب تشبیه وجه تشبیه ، غرض تشبیه

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
10
Q

کنایہ

A

کنایہ کے لغوی معنی چھپی ہوئی، پوشیدہ یا مہم بات کے ہیں۔ جب کوئی لفظ حقیقی کی بجائے مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہو کہ اس سے حقیقی معنی بھی مراد لیے جاسکیں۔ مثلاً: بال سفید ہو گئے مگر عادتیں نہ بدلیں۔ یہاں بال سفید ہونا سے مراد مر کا زیادہ ہوتا ہے۔ اے کالے نے کاٹا سے مراد سانپ نے کاٹا۔

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
11
Q

مجاز مرسل:

A

اگر کسی لفظ کو حقیقی کی بجائے مجازی (غیر حقیقی معنوں میں استعمال کیا جائے اور دونوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہو تو اسے مجاز مرسل کہتے ہیں۔ مجاز مرسل کے استعمال کی کئی صورتیں ہو سکتی ۔

ا جزو کم کر کل مراد لینا۔ مثلاً: انسان کی زندگی چاروں کی ہے۔

گل کہہ کر جزومر اولیا۔ مثلاً: احمد لاہور میں رہتا ہے۔

طرف کہہ کر مظروف مراد لینا۔ مثلا: اکرم نے بوش پی۔

مظروف کہہ کر ظرف مراد لیا۔ مثلا: چائے چولہے پر رکھی ہے۔

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
12
Q

مطلع مطلع ثانی مقطع

A

غزل یا قصیدے کو پہلے شر کو مطلع کہتے ہیں جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ ردیف ہوتے ہیں اگر مطلع کے بعد کے شعر میں بھی مطلع جیسا اہتمام ہو تو اسے مطلع پانی کہیں گے

غزل با قصیدے کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے مقطع کہلاتا ہے۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی کی درج ذیل غزل میں مطلع ، مطلع بونی اور مقطع کی مثالیں ملاحظہ کریں۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

(مطلع)

تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا
گھر میں گھر جاناں کا سحرا میں بکھر جاؤں گا

(مطلع ثانی)

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
مجھ تو جاؤں گا مگر صبح صبح تو کر جاؤں گا

(مقطع)

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly