نظم 5: سراغ راہرو Flashcards
سراغ راہرو (تعارف)
جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔وہ شاعرِ انقلاب بھی کہلائے جاتے ہیں۔یہ نظم ان کی کتاب “سرودوخروش “سے لی گئی ہے۔زیر بحث نظم میں جوش ملیح آبادی مثالوں سے یہ دعویٰٰ قائم کرتے ہیں کہ ہرقدم کا نشان کسی مسافر کے گزرنے کی دلیل ہے۔ پھر وہ ہمیں آسمان کی طرف متوجہ کر کے چاند ستاروں کو کسی کے قدم کے نشان اور شوخی رفتار کی علامت قرار دیتے ہیں جو وہاں سے گزرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
جہاں زمیں پہ رگڑ کا نشاں ہُوَیدا ہے
دلیل اس کی ہے سانپ اس طرف سے گزرا ہے
حلِ لُغات:ہَویدا(ظاہر)، دلیل(ثبوت)، سراغ(نشان)، راہرو(مسافر)
مفہوم:زمین پر رگڑ کا نشان سانپ کے گزرنے کی دلیل ہے
خیالِ زلف میں ہر دم نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر
یہ اور بات کہ اس پر کوئی چلے نہ چلے
لکیر چھوڑنے والا لکیر چھوڑ گیا
چلتے رہو کہ چلنا ہی شرط ِ سفر ہے یاں
عارف کوئی سفر، سفرِ رائیگاں نہیں
نشاں ہلال نما راہ میں بتاتے ہیں
کہ تھوڑی دور پہ آگے سوار جاتے ہیں
حلِ لُغات:نشان ہلال نما(پہلی رات کے چاند کی طرح کا نشان)، سوار(گھڑسوار)
مفہوم:زمین پر ہلال جیسے نشانات اس بات کو ظاہر کرتےہیں کہ تھوڑی دور آگےسوار جاتے ہیں۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب !
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ترجمہ: ’’اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔‘‘
(النجم:39)
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
قدم قدم بڑھائے جا شکیل دیکھ سامنے
وہ اُٹھ رہی ہے گرد سی وہ جا رہا ہے کارواں
غبارِ راہ نشاں ہے کسی تگ و پَو کا
یقین ہوتا ہے نقشِ قدم سے رَاہرَو کا
حلِ لُغات:غبارِراہ(راستے کی دھول)، تگ وپَو(جستجو)، راہرو(مسافر)، نقشِ قدم(پاؤں کا نشان)
مفہوم:راستے میں اُڑتا ہوا گردو غبار کسی کی محنت، کوشش اور جستجو کی علامت ہے ا ور راستے پر قدموں کے نشانات کسی کے گزرنے کا پتہ دیتے ہیں
غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق ِ جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے
ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
صنم تراش نہ ہو تو صنم نہیں بنتا
قدم نہ ہو تو نشانِ قدم نہیں بنتا
حلِ لُغات:صنم تراش(بُت تراشنے والا)
مفہوم:اگر بُت تراش یعنی بت بنانے والے نہ ہو تو بُت نہیں بنتا۔ اسی طرح اگر قدم(پاؤں ) نہ ہوں تو قدموں کے نشانات نہیں بنتے۔
ترجمہ: ”بے شک آسمان اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“
(ال عمران:190
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
تیرا انکار کیا قیامت ہے
لوگ کہنے لگے خدا ہی نہیں
یونہی یہ راہ کہ ہے جس کا نام کاہ کشاں
یونہی یہ نقشِ قدم، ماہ و نیّرِ تاباں
حلِ لُغات:کاہ کشاں( کہکشاں،ستاروں کا جھرمٹ،رات کوآسمان پر نظر آنے والا ستاروں کا سفید راستہ)، ماہ(چاند)، نیّرِتاباں(چمکتا ہوا سورج)
مفہوم:اسی طرح ایک راستہ ہے جس کا نام کہکشاں ہے اور اس میں چمکتے سورج چاند کسی کے قدموں کے نشان ہیں۔
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
چلتا رہے جو آبلہ پائی کے باوجود
منزل کا مستحق وہی صحرا نورد ہے
ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقشِ پا کا گماں
قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے
یونہی یہ گردِ سرِ راہ خوش نما تارے
رواں ہیں جن کی جبینوں سے حُسن کے دھارے
حلِ لُغات:گرد ِسرِراہ(راستے کی دھول)، خوش نما(خوب صورت)، جبیں(پیشانی)، حُاسن کا دھارا(حسن کا منبع)
مفہوم:اسی طرح یہ خوب صورت ستارے راستے کی گرد ہیں اوران کی پیشانیوں سے حسن یعنی خوب صورتی کے چشمے پھوٹ رہے ہیں
کروڑوں سالوں کے جاگے ہوئے یہ تارے ہیں
جمال و حسن کے بہتے ہوئے یہ دھارے ہیں
رکے جو لوگ تو اک آب جو بھی دریا تھی
اتر گئے تو سمندر بھی تا کمر نکلے
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
زمیں کا نور ہیں اور آسماں کی زینت ہیں
کسی کی شوخیِ رفتار کی علامت ہیں
حلِ لُغات:زینت(سجاوٹ)، شوخی ِرفتار(چال کی شوخی)
مفہوم:یہ ستارے زمین کی روشنی اور آسمان کی خوب صورتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کسی کی رفتار کی شوخی کی علامت بھی ہیں۔
چلتے رہو کہ چلنا ہی منزل کی شرط ہے
عارف کوئی سفر، سفرِ رائیگاں نہیں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ترجمہ: ”جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اسے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے۔“
(الملک : 3
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں