ظم 3: خدا سرسبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہوکر Flashcards

1
Q

(تعارف)

A

یہ نظم ’’کلیات اکبر ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا اصل عنوان ’’نماز چمن‘‘ ہے لیکن کتاب کے مؤلفین نے نظم کے آخری مصرعے کو اس کا عنوان بنا دیا ہے۔ زیر بحث نظم ایک چمن کا منظر ہے جس میں بہار کی آمد آمد ہے۔ آخر میں نماز چمن کے بعد اس کے ہمیشہ سرسبز رہنے کی دعا مانگی گئی ہے۔ اس نظم میں چمن سے مراد بہ طور استعارہ وطن بھی لیا جا سکتا ہے

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
2
Q

بہار آئی کھلے گُل زیبِ صحنِ بوستاں ہو کر

عنادِل نے مچائی دھوم سر گرمِ فغاں ہو کر

A

حلِ لُغات:زیب(آرائش، خوب صورتی)، صحن بوستاں(باغ کا صحن)، عنادل(عندلیب کی جمع، بُلبلیں)، سرگرم(پر جوش)، فغاں(فریاد مراد گیت)

فہوم:بہار کی آمدپر کھلنے والے پھول باغ کے صحن کی زینت بن گئے ہیں۔ ان پھولوں کو دیکھ کر بُلبلوں نے خوشی سے چہچہانا شروع کر دیا۔

       چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے

پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے

موسم ہے نکلے شاخوں سے پتے ہرے ہرے

پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

آمد بہار کی ہے جو بُلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیّور کی

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
3
Q

بچھا فرشِ زمرّد اہتمام سبزۂ تر میں
چلی مستانہ وش بادِ صبا عنبر فشاں ہو ک

A

لِ لُغات:زمرّد(سبز رنگ کا ایک قیمتی پتھر)، سبزہ تر(تروتازہ سبزہ)، مستانہ وش(مستی کے سے انداز میں) بادصبا(صبح کی ہوا)،
عنبرفشاں(خوش بو بکھیرتے ہوئے)

مفہوم: سبزہ تر یعنی تازہ اگنے والی گھاس کے استقبال کے لیے فرش زمرد یعنی سبز رنگ کا قلین بجھ گیا ہے اور باد صبا بھی اپنے دامن میں خوشبوئیں سمیٹ کر مستانوں کی طرح چلنے لگی ہیں

اوس نے فرشِ زمرّد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر

شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام
سبزےکو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
کام ہوتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

دشت سے جھوم کر جب باد صبا اتی تھی
صاف غنچوں کے چٹخنے کی صدا اتی تھی

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
4
Q

عروجِ نشۂ نشوونما سے ڈالیاں جھومیں
ترانے گائے مرغانِ چمن نے شادماں ہو کر

A

حلِ لُغات:عروج(انتہا)، نشہ ٔ نشوونما(پھلنے پھولنےکا نشہ) مرغانِ چمن(باغ کے پرندے)، شادماں(خوشی)

مفہوم:بہار کے موسم میں شاخیں نشو و نما کے نشے میں جھوم رہی ہیں اور باغ میں موجود تمام پرندے خوشی کے گیت گانے میں مصروف ہیں

ہر سمت گلستاں میں وہ انبار گُلوں کے
شبنم سے وہ دھوئے ہوے رخسار گلوں کے

ہر پھول کا چہرہ عرقِ حسن سے تر ہے
ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پر اُکسانے لگا مرغِ چمن

جادو بھرا تھا گل کا ادھر حسنِ جاں فزا
بُلبل ادھر ترانۂ اُلفت سے خوش نوا

پرندوں کی شیریں بیانی عجب تھی
درختوں پہ پھولوں کی خوشبو غضب تھی

ہر ایک شے کی زبان پر قدرت حق کے ترانے ہیں
نظر جس سمت اٹھتی ہے عجب منظر سہانے ہیں

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
5
Q

بلائیں شاخِ گل کی لیں نسیمِ صبح گاہی نے
ہوئیں کلیاں شگفتہ روئے رنگینِ بتاں ہو کر

A

حلِ لُغات:بلائیں لینا(قربان ہونا)، شاخِ گل(پھول کی ٹہنی)، نسیم(صبح کی ٹھنڈی ہوا)، صبح گاہی(صبح کا وقت)، شگفتہ(کِھلنا)، رُو(چہرہ)، روئے رنگین(خوب صورت چہرہ)، بُتاں(محبوب)

مفہوم:صبح کی ٹھنڈی ہوا نے پھولوں کی خوب صورتی کو دیکھ کر اس کی بلائیں لیں تو کلیاں محبوب کے خوب صورت چہرے کی مانند کھل اٹھیں۔

وہ پھیلنا خوش بو کا وہ کلیوں کا چٹکنا
وہ چاندنی مدھم وہ سمندر کا جھلکنا

شاخوں سے ملی جاتی ہیں شاخیں وہ اثر ہے
کہتی ہے نسیمِ سحری عیدِ سحر ہے

وہ برگِ گلِ تازہ وہ شبنم کی لطافت
اک حسن سے وہ خندۂ سامان حقیقت

پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
6
Q

کیا پھولوں نے شبنم سے وُضو صحنِ گلستاں میں
صدائے نغمۂ بُلبل اُٹھی بانگِ اذاں ہو کر

A

حلِ لُغات:صحن گلستان(باغ کا صحن)، صدا(آواز)، نغمۂ بُلبل( بُلبل کا گیت)، بانگ اذاں(اذان کی آواز)

مفہوم:باغ میں پھولوں نے شبنم سے وضو کیا اور بُلبل نے اپنی سُریلی آواز میں اذان دی۔

سحر کو باغ میں پڑتی ہے اس لیے شبنم
کہ پتا پتا کرے یاد باوضو تیری

ترجمہ: ”آسمانوں اور زمین میں جو ہے (سب) اللہ کی تسبیح کر رہاہے ۔ وہ زبردست با حکمت ہے۔“

(الحدید:1)

نوبت ہے صدائے قمریاں کی
تیاری ہے باغ میں اذاں کی

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
7
Q

ہوائے شوق میں شاخیں جھکیں خالق کے سجدے کو
ہوئی تسبیح میں مصروف ہر پتی زباں ہوکر

A

حلِ لُغات:ہوائے شوق میں(جذبے یا محبت سے)، تسبیح(سبحان اللہ کہنا، اللہ کی پاکی بیان کرنا)

مفہوم:درختوں کی شاخیں محبت کے جذبے میں خالق کائنات کے حضور سجدے کے لیے جھکیں اور ہر پتی زباں بن کر اس خالق کی تسبیح کرنے لگی

اپنے ہی سجدے کا ہے شوق میرے سرِ نیاز میں
کعبۂ دل ہے سامنے محو ہوں میں نماز میں

ترجمہ: ”خبردار! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔“

(العلق:19)

اور ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ

ترجمہ : بندہ سجدے میں خدا کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس لیے سجدے میں کثرت سے دُعا کیا کرو۔

(سنن نسائی:1138)

اک کشف و کرامات کا عالم ہے گلستاں
یا بادِ صبا، رازِ جہاں کھول رہی ہے

ہر شمعِ خموش فکر میں ہے
ہر طائر شوخ ذکر میں ہے

ہلکا تھا ندامت سے سرمایہ عبادت کا
اک قطرے میں بہہ نکلے تسبیح کے سو دانے

ہر گل میں تو ہے تجھ میں ہزاروں تجلیاں
دیوانہ کر دیا مجھے فصل بہار نے

وقت تسبیح کا تھا عشق کا دم بھرتے تھے
اپنے معبود کی سب حمد و ثنا کرتے تھے

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly
8
Q

زبانِ برگِ گل نے کی دعا رنگیں عبارت میں
خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر

A

حلِ لُغات:زبان برگ گل(پھول کی پتی کی زبان)، رنگین عبارت میں(خوب صورت الفاظ میں)

مفہوم:پھول کی پتیاں بڑے دل کش انداز میں اللہ پاک سے دعا مانگ رہی ہیں کہ اے اللہ ! اس باغ کو اپنی مہربانی سے یوں ہی سر سبز و شاداب رکھنا

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

ترجمہ: ”اورتمھارے رب نے فرمایا مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا“۔

(غافر:40)

کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

پھلا پھولا رہے! یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
علامہ اقبال

How well did you know this?
1
Not at all
2
3
4
5
Perfectly